فرزند زہرا(ع) کی
شہادت کا
واقعہمام حسین علیہ السلام کے حامیوں میں کوئی بھی زندہ نہیں بچا، "حبیب"، "زہیر"؛ "بریر" اور "حر" سمیت تمام اصحاب و انصار شہید ہوچکے ہیں اور "اکبر"، "قاسم"، "جعفر" اور دیگر جوانان بنی ہاشم – حتی کہ شش ماہہ علی اصغر (ع) اپنی جانیں اسلام پر نچھاور کر چکے ہیں، اور عباس، علمدار حسین، ساقی لب تشنگان، بے سر و بے دست ہو کر خیام اہل بیت ( ع) سے دور گھوڑے سے اترے ہیں اور شہید ہوچکے ہیں۔حسین علیہ السلام نے دائیں بائیں نظر دوڑائی، اس وسیع و عریض دشت میں، مگر آپ (ع) کو کوئی بھی نظر نہیں آیا۔ کوئی بھی نہ تھا جو امام (ع) کی حفاظت اور حرم رسول اللہ کے دفاع کے لئے جانبازی کرتا... جو تھے وہ اپنا فرض ادا کرچکے تھے... چنانچہ امام علیہ السلام خیام میں تشریف لائے، جانے کے لئے آئے تھے... بیبیوں سے وداع کا وقت آن پہنچا تھا... عجیب دلگداز منظر تھا، خواتین اور بچیوں نے مولا کے گرد حلقہ سا تشکیل دیا تھا... ہر کوئی کچھ کہنا چاہتا تھا مگر کیسے بولے... کیا بولے...؟ کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔بیٹیاں زیادہ آسانی سے بول لیتی ہیں چنانچہ "سکینہ" آگے بڑھیں اور عرض کیا: "باباجان! کیا آپ نے موت کو قبول کیا اور دل رحیل کے سپرد کردیا؟" امام نے فرمایا: کیونکر موت قبول نہ کرے وہ آدمی جس کا نہ کوئی دوست ہے نہ کوئی حامی؟"۔ گریہ وبکاء کی صدا اٹھی... مگر امام رلانے کے لئے نہیں آئے تھے وقت کم تھا اور ایک بڑی امانت آپ کی پاس تھی جس كو اس کے اہل کے سپرد کرنا تھا... وصیت بھی کرنی تھی... چنانچہ امام نے سب کو وصیتیں کیں اور امامت کے ودائع و امانات اور انبیاء کی مواریث امام علی ابن الحسین علیہ السلام کے سپرد کردیں... ثانی زہراء سے کہا: نماز تہجد میں مجھے یاد رکھنا... یہ بھی امام کی ایک وصیت تھی... Misbah Ul Hudaa Foundation...
ادامه مطلبما را در سایت Misbah Ul Hudaa Foundation دنبال می کنید
برچسب : نویسنده : cmisbahulhudaac بازدید : 79 تاريخ : پنجشنبه 8 ارديبهشت 1401 ساعت: 12:21